تاہم قطر کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمارگمراہ کن ہیں کیوںکہ ملک میں ہونے والی تمام اموات ان لوگوں کی نہیں جو ورلڈ کپ سے جڑے منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔
قطر حکومت کے مطابق 2014 سے 2020 کے درمیان ورلڈ کپ سٹیڈیمز کی تعمیر کے دوران 37 اموات ہوئیں جن میں سے صرف تین کام کی وجہ سے تھیں۔
دوسری جانب انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ قطر حکومت کے اعداد و شمار درست نہیں۔
ملک میں اسلامی قوانین کے اطلاق کی وجہ سے بھی خدشات موجود رہے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ہم جنس پرست شائقین کے ساتھ قطر میں کیسا برتاؤ کیا جائے گا۔
دوسری جانب اسی معاملے پر کھلاڑیوں پر بھی دباؤ رہا کہ وہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں اور اس معاملے پر کھل کر بات کریں۔
انگلینڈ کے کھلاڑی کونور کوڈی نے جمعرات کو دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’ہم سیاستدان نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم کبھی بھی سیاست دان نہیں ہو سکتے لیکن ہماری ٹیم نے گذشتہ چند برس میں بہت کچھ کیا اور لوگوں کی مدد کی۔‘
فیفا کے سابق صدر، سیپ بلیٹر، جن کے دور میں قطر کو فٹبال ورلڈ
کپ کی میزبانی کے حقوق دیے گئے، نے گذشتہ ہفتے کہا کہ ’یہ فیصلہ ایک غلطی
تھ
تاہم ٹورنامنٹ کے آغاز سے ایک دن قبل فیفا کے موجودہ صدر جیانی انفینٹینو نے مغرب پر قطر میں انسانی حقوق کے معاملے پر رپورٹنگ کے معاملے میں دوغلے پن کا الزام لگایا۔
دوحہ میں ایک غیر معمولی طویل پریس کانفرنس میں انھوں نے ایک گھنٹے تک بات کی اور قطر اور ٹورنامنٹ کا دفاع کیا۔
یہاں درجہ حرات موسم گرما میں 50 ڈگری تک جا پہنچتا ہے اور اسی لیے پہلی بار فٹبال ورلڈ کپ موسم سرما میں ہو رہا ہے تاہم یہاں موسم سرما میں بھی دن کے دوران 32 ڈگری تک درجہ حرات رہتا ہے جو شام میں 22 ڈگری تک نیچے آتا ہے۔
اسی وجہ سے یورپی فٹ بال لیگز کو سیزن کے درمیان میں کھیل روکنا پڑا۔
ایک اور تنازع حال ہی میں شروع ہوا جب ٹورنامنٹ کی انتظامیہ نے صرف دو دن قبل اعلان کیا کہ شائقین فٹ بال سٹیڈیمز کی حدود کے اندر شراب خرید اور پی نہیں سکتے۔